TRUE
RTL

Classic Header

{fbt_classic_header}

تازہ ترین :

latest

کورٹ میرج کے بڑھتے ہوئے رحجان کے باعث طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، نزہت سردار ایڈووکیٹ

کورٹ میرج کے بڑھتے ہوئے رحجان کے باعث طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، نزہت سردار ایڈووکیٹ




راولپنڈی (ویب ڈیسک)  معروف قانون دان ممبرڈسٹرکٹ بار راولپنڈی نزہت سردار ایڈووکیٹ نے کورٹ میرج کی شرح میں مسلسل اضافے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورٹ میرج کے بڑھتے ہوئے رحجان کے باعث طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ولی کی مرضی کے بغیر ہونے والی شادی سے زندگی میں کبھی سکون حاصل نہیں ہو سکتاکورٹ میرج کرنے والی لڑکیوں کو معاشرہ قبول نہیں کرنا پڑتا بالآخربیشتر لڑکیوں کو دارلامان میں زندگی گزارنی پڑتی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز راولپنڈی کچہری میں اپنے نئے چیمبر کی افتتاحی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کیاانہوں نے کہا کہ عدالتوں میں ہونے والے نکاح کی شرح تقریباً 30 فیصد ہے گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کرنے کے لئے جو لڑکیاں کورٹ میرج کرتی ہیں ان لڑکیوں کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے نہ ہی ہمارا معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے اور نہ ہی سسرال میں عزت حاصل ہوتی ہے  جہاں بات بات پر طعنہ زنی برداشت کرنی پڑتی ہے وہیں معاشرے میں بھی انہیں طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لئے زیادہ تر کورٹ میرج کامیاب نہیں ہوتی آئے روز کی طعنہ زنی اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیاں مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اورنوبت گالی گلوچ اور دست اندازی تک پہنچ جاتی ہے اور عدالتوں سے ہی انصاف کے لئے ایک دوسرے پر کیس فائل کر دیئے جاتے ہیں ناچاکی کی صورت میں خواتیں دوبارہ اپنے ماں باپ کے گھر جانا نہیں چاہتی اور اُن کو دارالاامان میں رہائش رکھنی پڑتی ہے ایسے کئی کیس عدالتوں میں موجود ہیں انہوں نے کہاکہ لڑکیوں کی شادی میں ولی کی مرضی انتہائی ضروری ہے پسند کی شادی کورٹ میرج کرنی والی لڑکیوں کے ساتھ یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ ان خواتین نے پسند کی شادی کورٹ میرج کی ہوتی ہے ان کا کوئی ولی نہیں ہوتا جذبات میں کی جانے والی شادیاں اسلئے کامیاب نہیں ہوتیں کہ ان کے اس فیصلے میں ولی کی مرضی شامل نہیں ہوتی اور ولی کی مرضی شامل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی میں سکون نہیں ہوتا ہے ذاتی پسند نا پسند کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ہے کیونکہ ایسے فیصلوں میں جلد غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے ولی کی مرضی سے ہونے والی شادی میں ولی کے سامنے نکاح نامے میں کالم میں لڑکی سے پوچھنے والے سوال پر کراس لگا دیا جاتا ہے جہاں لڑکی کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے ایسی صورت میں لڑکیاں تمام عمر بلیک میل ہوتی رہتی ہیں ظلم و جبر برداشت کرتی رہتی ہیں اُن ہی کالموں میں لڑکیوں کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں بدقسمتی سے وہ دبا دیئے جاتے ہیں جو سخت زیادتی ناانصافی ہے لڑکیوں کو بھی اپنے تحفظ کی مکمل آزادی حاصل ہونا چاہیے ولی کو بھی چاہیے لڑکی کی شادی کے وقت پسند نا پسند کا خیال رکھا جائے جوحقوق شریعت میں حاصل ہیں وہ اُسے ملنے چاہیے۔

 

کوئی تبصرے نہیں